Monday, August 10, 2015

سیّد قطب شہید:قرآنی دعوتِ انقلاب کے داعی


'سیّد قطب کو پھانسی دے دی گئی'۔
'سیّد قطب کو شہید کر دیا گیا۔'
اخبارات کی شہ سرخیوں اور ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں میں اطلاع اورتاثر سے لبریز الفاظ شائع ہوئے اور آوازیں ابھریں۔
جنھوں نے سمجھا تھا: 'آواز کو دبا اور قلم کو توڑ دیا ہے، اب ہمارا اقتدار محفوظ ہے'، وہ نہ آواز کو دبا سکے، نہ قلم کی قوت سلب کر سکے اور نہ اپنے اقتدار کو بچا سکے۔
آج وہ آواز زندہ ہی نہیں، بہت توانا بھی ہے۔ اس قلم سے نکلی تحریریں آج بھی روشنی اور نور بکھیر رہی ہیں۔ ان الفاظ کی خوشبو سے فضاؤں کو معطر کرنے والے، دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ اس فرد کا استدلال، اسلام کے پروانوں کا دماغ ہے۔ وہ جو قیدوبند اور بیماری و نقاہت کے باعث ہمدردی کا مستحق قرار دیا جا رہا تھا، آج وہی ہے جو برہانِ ربّانی بنا جاہلیت اور طاغوت کی رگِ جاں کے لیے چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ یہ نام ہے سیّد قطب شہید۔

۞

سیّد قطب شہید کے والد ابراہیم قطب، مصر کے ضلع اسیوط کے موشا، نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ وہیں ۶؍اکتوبر۱۹۰۶ء کوسیّد قطب کی ولادت ہوئی۔ ان کا نام سیّد رکھا گیا اور قطب ان کا خاندانی نام تھا(یہاں لفظ 'سید' بطور نام ہے، سیّد زادہ' نہیں)۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کے بقول انھیں سیّد قطب نے بتایا تھا کہ پانچ نسلیں پیش تر ہمارے آباد اجداد ہندستان کے کسی علاقے سے ہجرت کرکے عرب میں آبسے تھے۔ سید قطب کے والد ابراہیم قطب، مصر کے مشہور رہنما مصطفےٰ کامل پاشا [۱۴؍اگست۱۸۷۴ء۔۱۰؍فروری۱۹۰۸ء] کی تحریک 'حزب الوطنی' سے متاثر تھے، جو مصر کی آزادی اور مغربی سامراج کی غلامی سے نجات کے لیے متحرک تھی۔ چند برسوں بعد یہ خاندان گاؤں چھوڑ کر قاہرہ کی ایک نواحی بستی حلوان میں آباد ہو گیا۔
۱۰برس کی عمر میں سید قطب، قرآن کریم حفظ کرکے قاہرہ کے ثانوی مدرسے میں داخل ہوگئے۔ اسکول کے زمانے ہی میں وہ سامراجی قوتوں کے خلاف تقریریں کرنے میں پیش پیش تھے۔ کالج میں داخل ہوئے تو ماموں کے ہاں رہنے لگے۔ ۱۹۲۹ء میں ایجوکیشن میں آنرز کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا، اور لیکچرر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۸ء میں والد کا انتقال ہو گیا، تو ان کی والدہ اپنے بچوں سمیت، اپنے بھائی احمد حسین الموشی کے ہاں قاہرہ آگئیں۔ اعلیٰ صلاحیت اور محنت کے نتیجے میں ان کو ۱۹۳۹ء میں وزارت تعلیم نے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز کر دیا۔ ۱۹۴۰ء میں ان کی والدہ محترمہ بھی انتقال کر گئیں۔یوں بڑا بھائی ہونے کے ناتے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سید قطب کے کندھوں پر آگئی۔
لڑکپن کے زمانے میں سید قطب انگریزوں سے حصول آزادی کے لیے سعد زغلول پاشا (
۱۸۵۹۔۲۳؍اگست۱۹۲۷ء) اور ان کی 'وفد پارٹی' سے متاثر تھے، جو استعماری ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے میں بڑی جرأت سے متحرک تھی۔ تب مصر پر احمد فواداوّل (۱۸۶۸ء۔۲۸؍اپریل ۱۹۳۶ء) کی بادشاہت تھی اور برطانیہ کی بھرپور پشت پناہی۔ سید قطب کی ابتدائی تحریریں، آزادیِ وطن کے انقلابی لہجے سے بھرپور پیغام پیش کرتی ہیں۔وہ مصری حکمرانوں کے استبداد اور انگریز نوازی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثال کے طور پر مصر کے وزیر اعظم [۲۴؍جون ۱۹۲۸ء۔ ۴؍اکتوبر۱۹۲۹ء] محمد محمود پاشا [م:۱۹۴۱ء] نے جب اپنے ایک بیان میں حریت و استقلال کے جذبے سے سرشار مصریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
میں قانون شکنی کرنے اور بدامنی کو ہوا دینے اور امن امان میں خلل ڈالنے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی خبر آہنی ہاتھوں سے لوں گا۔
اس بیان نے ملک میں خوف کی لہر دوڑا دی،اور سید قطب تڑپ اٹھے۔ انھوں نے اخبار کو مضمون بھیجا، جس میں لکھا:
یَا صَاحِبَ الْیَدِ الْحَدِیْدِیَّۃِ : [اے لوہے کے ہاتھوں والے] اگر تو اپنے لوہے کے ہاتھوں پر نظر ڈالے گا، تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ وہ زنگ آلود ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم محمود پاشا سمجھ گئے کہ حملہ جوابی ہے۔ انھوں نے انتظامیہ کے اہل کار بھیجے کہ وہ مضمون نگار کو ان کے سامنے پیش کریں، تاکہ اس کو سمجھایا جا سکے۔ سید قطب، وزیراعظم دفتر پہنچے تو وزیراعظم محمود پاشا اپنے سامنے
۲۲سالہ نوجوان کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھنے لگے:
''اے نوجوان! یہ مضمون تم ہی نے لکھا ہے؟''
سید قطب نے جواب دیا: ''جی ہاں، یہ میں نے لکھا ہے؟''
وزیراعظم نے پوچھا: ''اتنے سخت لہجے میں لکھنے کی وجہ؟''
نوجوان سید قطب نے جواب دیا: ''یہی میرا عقیدہ ہے''۔
وزیراعظم نے حکمت سے کام لیتے ہوئے کہا: ''جاؤ میرے بیٹے، جو دل میں آئے لکھو''۔
وزیراعظم کا خیال تھا کہ دھمکی دیے بغیر، حکومت کے ایوانوں کا رعب لڑکے کے دل پر اثر ڈال کر رہے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔
یاد رہے یہ وہ زمانہ ہے جب
۱۹۲۸ء میں اخوان المسلمون ابھی اسماعیلیہ میں تشکیلی دور سے گزر رہی تھی۔ اگلے ۱۵ برسوں کے دوران میں سید قطب کا یہی قلم مختلف اخباروں اور رسالوں میں بڑی قوت سے ہم وطنوں کو سامراجی زنجیریں توڑنے کے لیے پکارتا رہا۔ حتیٰ کہ مصری حاکم اعلیٰ (۲۸؍اپریل۱۹۳۶ء۔۲۶؍جولائی۱۹۵۲ء) شاہ فاروق تک تلملا اٹھا، اور وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی کہ سید قطب کو گرفتار کیا جائے۔ مگر اس کے وزیراعظم محمود فہمی نقراشی پاشا نے گرفتاری کے حکم پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیداکی، اور سید قطب کے خاندان سے ذاتی اور سماجی تعلق کی بنا پر شاہ فاروق سے کہا: ''میں سید قطب کو سمجھاؤں گا''۔ نقراشی پاشا نے انھیں سمجھانے کی جسارت کرنے کے بجاے امریکی نظام تعلیم و تربیت کے جائزے کے لیے ملک سے باہر بھجوانے کی اسکیم بنائی۔

۞

سیّدقطب شہید ایک عالم اور دانش ور ہی نہ تھے، بلکہ ایک صاحب طرز ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھوں نے ۱۹۳۹ء میں التصویر الفنی فی القرآن کے عنوان سے ایک قسط وار مقالہ لکھنا شروع کیا، جو مجلہ المقتطف میں طبع ہوتا رہا، اور بعد میں یہی سلسلۂ تحریر سیّد قطب کی پہلی علمی کتاب التصویر الفنی فی القرآن کی صورت میں ڈھلا۔ اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنی والدہ مرحومہ کے نام کتنے والہانہ جذبے سے تحریر کیا:
اے میری ماں!
گاؤں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات دل نشین انداز میں قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے، تو آپ گھنٹوں کان لگا کر پوری محویت اور توجہ کے ساتھ پردے کے پیچھے سے تلاوت سنا کرتی تھیں۔
میں آپ کے پاس بیٹھ کر جب بچوں کی عادت کے مطابق شور کرتا تھا، تو آپ مجھے اشارے سے باز رہنے کی تلقین کیا کرتیں اور پھر میں بھی آپ کے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا۔ میرا دل الفاظ کے سحر انگیز لحن سے محظوظ ہوتا، اگرچہ اس وقت میں ان کے مفہوم سے ناآشنا تھا۔
آپ کے ہاتھوں جب پروان چڑھا تو آپ نے مجھے گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا۔ آپ کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ اللہ میرے سینے کو کھول دے، اور میں قرآن حفظ کر لوں، اور اللہ مجھے خوش الحانی کی نعمت سے نواز دے، اور پھر میں آپ کے سامنے بیٹھا ہر وقت تلاوت کیا کروں۔ پھر آپ کی یہ آرزو بر آئی اور میں نے قرآن حفظ کر لیا، اور یوں آپ کی آرزوؤں کا ایک حصہ پورا ہو گیا۔ اس طرح آپ نے مجھے اس نئی راہ پر ڈالا، جس پر میں اب گامزن ہوں۔
میری امی، آپ اگرچہ ہم سے رخصت ہو گئی ہیں، مگر اب تک آپ کی آخری تصویر میرے حافظے پر نقش ہے۔
گھر میں آپ کا ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر خوش الحان قاری کی تلاوت کا سننا مجھے ابھی تک نہیں بھولا۔ تلاوت سنتے وقت آپ کے مقدس چہرے کا اتار چڑھاؤ بھی مجھے یاد ہے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ آپ کے دل اور دماغ، قرآن کے اسرار و رموز کو بخوبی سمجھتے ہوئے متاثر ہوا کرتے تھے۔
پیاری امی!آپ کا وہی ننھا بچہ، آپ کا جوان لختِ جگر آج آپ ہی کی تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ حسنِ ترتیل کی اس میں کمی ہے، لیکن غالباً حسنِ تاویل کی نعمت سے وہ محروم نہیں۔
اللہ آپ کی قبر پر رحمت کا سایہ کرے اور آپ کے بیٹے کو محفوظ رکھے۔
بالکل اسی طرح سیّد قطب نے اپنی اگلی کتاب مشاہد القیامۃ فی القرآن کا انتساب اپنے کریم و حلیم والد کے نام کرتے ہوئے ان الفاظ کو چنا:
میرے ابّا،یہ کاوش میں آپ کی روح کی نذر کرتا ہوں۔
میں ابھی بچہ ہی تھا کہ آپ نے میرے احساس و وجدان پر یوم آخرت کا خوف نقش کردیا۔ آپ نے مجھے کبھی جھڑکا نہیں، بلکہ میری نظروں میں آپ کی ساری زندگی یوں گزری کہ قیامت کی باز پرس کا احساس ہر آن آپ پر غالب رہتا۔ ہروقت آپ کے دل اور ضمیر پر اس کا اثر اور زبان پر اس کا ذکر رہتا۔
دوسروں کے حقوق دلانے اور دینے کے وقت آپ اپنی ذات کو تکلیف میں ڈال لیتے، اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے وقت آپ پر بے نیازی اور ایثار کی کیفیت طاری رہتی۔
آپ دوسروں کی زیادتیوں پر کھلے دل سے درگزر فرماتے، حالانکہ ان کو جواب دینے کی آپ میں طاقت ہوتی تھی۔ دراصل آپ قیامت کے روز اس صبر کواپنے لیے کفّارہ سمجھتے تھے۔ اکثر آپ اپنی ضروریات کی اشیا بھی دوسروں کو پیش کردیتے، حالانکہ آپ کو ان کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن آپ کہا کرتے تھے: 'زادِ آخرت جمع کر رہا ہوں۔'
آپ کاچہرہ میری یاد داشت پر اس طرح نقش ہے کہ: رات کے کھانے سے فراغت کے بعد ہم اسی طرح آپ کو تلاوتِ قرآن میں مگن دیکھتے، جس طرح آپ صبح تلاوت کیا کرتے تھے، اور اپنے والدین کی ارواح کو ثواب پہنچاتے تھے۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے بھی آپ کے ساتھ اِدھر اُدھر سے چند آیات گنگنانے لگتے، جو ہمیں پوری طرح یاد نہ ہوتی تھیں۔
سید قطب کا ابتدائی دور تحریر ادب، شاعری، ادبی تنقید اور سرگرم صحافت کی وادیوں میں فکر و دانش کے چراغ روشن کرنے سے منسوب ہے۔ اس ضمن میں وہ عباس محمود العقاد (
۲۸؍جون ۱۸۸۹ء، اسوان- ۱۳؍مارچ۱۹۶۴ء، قاہرہ) کے طرز تحریر اور اسلوبِ اظہار سے متاثر تھے۔ سیّدقطب کے ماموں احمدحسین الموشی، استاد عباس محمود العقاد کے دوست تھے۔ العقاد عربی ادب کے بڑے صاحبِ قلم تو تھے ہی، اور اسی طرح ان کے ہاں قرآن سے رہنمائی اور حریت پسندی سے وابستگی کے ساتھ الحاد سے بے زاری بھی فراواں تھی۔ سیدقطب نے ان تمام خوبیوں کو العقاد کی صحبت اور مطالعے سے بخوبی اخذکیا۔
سیّد قطب کی جس کتاب نے بڑے پیمانے پر اہلِ علم و دانش کی توجہ کھینچی، وہ العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ہے، جو
۱۹۴۷ء میں یعنی ان کے امریکا جانے سے پہلے شائع ہوئی۔ اردو ترجمہ [از:پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی] اسلام میں عدل اجتماعی ۱۹۶۰ء میں طبع ہوا۔
جیسے ہی اس کتاب کی پہلی کاپی مرشد عام امام حسن البنا کے ہاتھوں میں پہنچی، تو انھوں نے کتاب پڑھ کر ایک بھری مجلس میں بے ساختہ فرمایا:
'اِن پاکیزہ افکار کے مصنف کو الاخوان المسلمون میں ہونا چاہیے۔'
مصری حکومت نے
۱۹۴۸ء میں جدید طریقۂ تعلیم و تربیت کے مشاہدے اور مطالعے کے لیے انھیں امریکا بھیجا۔ پہلے چھے مہینے وہ ولسن ٹیچرز کالج، واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ رہے۔ پھر یونی ورسٹی آف ناردرن کولوراڈو (تاسیس:۱۸۸۹ء) کے کولوراڈو کالج آف ایجوکیشن، گریلی میں داخل ہوئے۔ جہاں وہ تقریباً ڈیڑھ سال رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے امریکا کے دیگر شہروں: سان فرانسسکو، اسٹن فورڈ، نیویارک، شکاگو، لاس اینجلز وغیرہ میں بھی تھوڑا تھوڑا عرصہ قیام کیا اور امریکی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قریب سے دیکھا۔
امریکا سے واپسی پر وہ چند ہفتے برطانیہ، سویزرلینڈ اور اٹلی میں بھی رہے۔ مغربی دنیا میں اس قیام کے دوران میں انھوں نے مغربی افکار کی حقیقت اور مادی تہذیب کی تباہ کاریوں کا براہِ راست مشاہدہ کیا اور اس کے بعد ہی ان پر حقیقت واضح ہوئی اور یہ یقین ان کے دل میں بیٹھ گیا کہ انسانیت کی فلاح صرف اسلام میں ہے۔
۱۹۵۰ء کے آخری ہفتوں میں سیّد قطب امریکا و یورپ کے سفر سے واپس آئے۔ ۱۹۵۱ء کے ابتدائی دنوں میں الاخوان المسلمون سے گہرے تعلق کو انھوں نے اپنی روح میں اترتے محسوس کر لیا، اور وابستہ ہوگئے، گویا: ''پھر دل نے بیٹھنے نہ دیا عمر بھر کہیں''۔ تب اپنی کتاب اسلام اور عدلِ اجتماعی کا انتساب ان لفظوں میں نئے سرے سے لکھا:
اُن صالح نوجوانوں کے نام
جنھیں میں اپنی چشمِ خیال میں دیکھا کرتا تھا۔
لیکن اب، ان کو حقیقی زندگی میں اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے ہوئے پاتا ہوں۔ یہ وہ مومنین ہیں، جن کے نفوس کی گہرائیوں میں یہ حقیقت پیوست ہے کہ عزت: اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین ہی کے لیے ہے۔
ان نوجوانوں کے نام
جو میرے خیالات میں، اور خوابوں میں ابھرے تھے، لیکن حقیقت میں وہ خیال سے بھی آگے، اور آرزوؤں سے بھی بڑھ کر ہیں۔
ان نوجوانوں کے نام
جو ضمیرِ غیب سے اس طرح پھوٹے ہیں، جس طرح ضمیرِعدم سے حیات پھوٹتی ہے، اور جس طرح ظلمتوں سے نور پھوٹتا ہے۔
ان نوجوانوں کے نام
جو اللہ کے نام پر، اللہ کی راہ میں، اور اللہ کی رحمتوں کے زیر سایہ جہاد کرتے ہیں،
میں یہ کتاب انھی کے نام منسوب کرتا ہوں۔
سیّد قطب نے
۱۹۵۳ء میں قاہرہ سے مجلہ الفکر الجدید جاری کیا۔ اس پرچے میں دیگر موضوعات کے ساتھ، انھوں نے جاگیردارانہ ظلم، سرمایہ دارانہ سفاکی اور استعماری حیوانیت پر شدت سے لکھنا شروع کیا۔ دولت کی ذخیرہ اندوزی اور مالی اجارہ داری کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں غلط ثابت کیا۔ عدل، انصاف، غربا کی دست گیری اور قرآن و سنت سے اسلام کے اقتصادی نظام کی طرف دعوت دی کہ بعض لوگوں نے ان کے افکار کو اشتراکی فکر کا اثر قرار دے ڈالا۔ حالانکہ وہ فکر و خیال کی کسی لہر میں اشتراکی تحریک سے کچھ بھی علاقہ نہیں رکھتے تھے۔ درحقیقت اُس زمانے میں کمزوروں، ناداروں، مظلوموں، محکوموں اور نو آبادیاتی نظام میں جکڑے لوگوں اور پسے ہوئے طبقوں کی دست گیری کرنے یا اُن کے حق میں کلمۂ خیر کہنے والے کو بے جا طور پر 'اشتراکیت زدہ' باور کرنے میں کچھ دیر نہ لگتی۔ جس طرح بعد کے زمانے میں آزادی کی جدوجہد کرنے یا اپنے ملّی حقوق کا تحفظ کرنے والے ہر مسلمان کو 'دہشت گرد' اور'انتہا پسند' کہا جانے لگا۔
۲۳؍جولائی ۱۹۵۲ء کو جنرل محمد نجیب کی سربراہی میں مصر میں فوجی انقلاب آیا، تواخوان کی آزمایشوں کا دور عارضی طور پر ختم ہوگیا۔ اس دوران میں سید قطب اخوان کے مرکزی دفتر میں شعبہ دعوت کے انچارج مقرر ہوئے۔ انھوں نے اپنے آپ کو ہمہ تن اخوان کی دعوت کے لیے وقف کردیا۔ جولائی ۱۹۵۴ء میں وہ جریدہ الاخوان المسلمون کے مدیر مقرر ہوئے۔ ۷؍جولائی ۱۹۵۴ء کو اینگلو مصری معاہدہ ہوا۔ اخوان نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا۔ سید قطب کے قلم نے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں، اسی جرم میں یہ جریدہ ستمبر۱۹۵۴ء میں حکومت نے بند کر دیا۔
اس سے قبل
۱۹۵۰ء میں الاخوان کے نوجوان عبقری رہنما سعید رمضان نے مجلہ المسلمون جاری کیا، اور اگلے برس سید قطب سے درخواست کی کہ وہ ہر شمارے کے لیے فی ظلال القرآن کے عنوان سے ایک مستقل کالم لکھا کریں۔ سیّد قطب نے اس تجویز کو شرفِ قبولیت بخشا اور بہت جلد ان کا یہ کالم مجلہ المسلمون کی جان اور عالم عرب میں دعوتِ قرآن کا موثر وسیلہ بن گیا۔ اسی دوران میں قاہرہ کے ایک اشاعتی ادارے نے سید قطب سے باقاعدہ درخواست کی کہ وہ اس سلسلۂ مضامین کو مستقل تفسیر اور کتاب کی شکل دیں۔ یوں جنوری۱۹۵۴ء تک اس کی پہلی چار جلدیں مکمل ہو گئیں۔ ۲۶؍اکتوبر۱۹۵۴ء کو مصری غاصب حکمران جمال ناصر نے قاتلانہ حملے کے جھوٹے الزام میں اخوان کے ۵ہزار کارکنوں کو گرفتار کر لیا،جن میں سیّدقطب بھی شامل تھے۔
ان گرفتار شدگان میں سے اخوان کے چھے رہنماؤں: سیکرٹری جنرل (سابق) جسٹس عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم طیب، ہنداوی دویر اور عبداللطیف کو
۸؍دسمبر۱۹۵۴ء کے روز پھانسی دے دی، لیکن مرشد عام حسن الہضیبی کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی۔
اس گرفتاری کے دوران سید قطب کو آہنی بیڑیوں میں جکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہاں شدتِ بخار نے ان کی صحت برباد کرکے رکھ دی۔ انھیں قلعہ جیل، ابوزعیل اور لیمان طرہّ کی دہشت انگیز جیلوں میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ حالت تشویش ناک حد تک خستہ ہو گئی تو انھیں زنجیروں میں جکڑ کر فوجی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔ اس طرح صرف آٹھ ماہ میں وہ دل، سانس اور اعصاب کے امراض میں گھر چکے تھے۔
انھی پُر مصائب ایام میں انھوں نے بچی کچھی قوت مجتمع کرکے فی ظلال القرآن کی طبع شدہ جلدوں پر نہ صرف نظر ثانی کی، بلکہ بقیہ جلدوں پر بھی کام شروع کیا۔ تاہم ترقی پسند انقلابی فرعون جمال ناصر نے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ: سید قطب جو لکھیں، اس میں سے 'قابلِ اعتراض' حصے حذف کر دیے جائیں، تاکہ 'روشن خیال قومی حکومت' پر کوئی زد نہ پڑے۔' اس کڑے جبر کے نظام کے باوجود سید قطب نے تفسیر مکمل کی۔ مذکورہ سنسر کمیٹی نے 'سورۂ فجر' اور 'سورہ بروج' کے مقدمے کی اشاعت روک دی۔ پھر اسی طرح تفسیری مسودے کے کئی کئی حصے حذف کر دیے۔ ایسے بعض قلمی شذرے ان کی کتاب معالم فی الطریق کا حصہ ہیں۔
سید قطب کے چھوٹے بھائی پروفیسر محمد قطب نے فی ظلال القرآن کے انگریزی ترجمے
In The Shade of the Quran کی تعارفی سطور میں لکھا:
فی ظلال القرآن مصنف کی فکری زندگی کے سب سے زیادہ معرکہ آرا برسوں کا ثمر ہے۔ اس تفسیر کا طویل ترین حصہ
۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک کی مدت میں لکھا گیا، جب کہ وہ جیل میں قید تھے۔ اسلام کے عظیم مقاصد کی خاطر انھوں نے اپنے افکار، اپنے احساسات، اپنی راتوں، اپنے دنوں اور درحقیقت اپنی پوری زندگی کو وقف کر دیا تھا۔ اس دوران میں وہ پوری طرح قرآن کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے۔ ایک ہمہ پہلو اور بھرپور جدوجہد، جس کی وجہ سے وہ قید ہوئے اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، صرف اس مقصد کے لیے تھی کہ اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ایک گروہ کی شکل میں سامنے آئے، جو اپنی زندگی میں اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کا داعی بھی ہو، یہاں تک کہ اسلام اس پوری ملت کا بحیثیت مجموعی عملی دستورِ حیات بن جائے۔ فی ظلال القرآن،درحقیقت اسی جدوجہد کی ایک اہم ترین کڑی ہے، اور اس لیے یہ قرآن کی مجرد تفسیر سے بہت آگے کی چیز ہے۔
تفسیرفی ظلال القرآن: بلند پایہ ادبی اسلوب، معتدل طرزِ بیان، ضعیف روایات سے پاک، عصری جاہلیت پر نقد و جرح، جدید تحقیقات کی عادلانہ تفہیم، فقہی اختلافات سے اجتناب، انقلاب آفرین اظہارِ مدعا اور قرآن و دین کو ایک ہمہ پہلو تحریک بنا دینے کا نصاب ہے۔
جمال ناصر نے اخوان پر دل لرزا دینے والے مظالم ڈھائے، کئی ذمہ داروں کو شہید کر دیا گیا۔ مختلف اوقات میں اخوان کے
۵۰؍ہزار کارکنوں کو جیل کی اندھیری کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا گیا۔انھیں کئی کئی دن بھوکا رکھا گیا۔اس حالت میں ان سے مشقت کرائی گئی، ان پر کتّے چھوڑکر بھنبھوڑا گیا۔ ان قیدیوں کو اس بری طرح پیٹا جاتا کہ پیٹنے والے تھک جاتے۔
اس داستانِ الم کو پڑھنے کی تاب ہو تو یہ کتابیں پڑھ لی جائیں: *رُودادِ قفس )ایام من حیاتی) از زینب الغزالی *رُودادِ ابتلا از احمد رائف، *وادیِ نیل کا قافلۂ سخت جان از حامد ابونصر (ترجمہ: حافظ محمد ادریس)*یادوں کی امانت از عمر تلمسانی (ترجمہ: حافظ محمد ادریس)۔
سید قطب جیسے بے مثل فاضل مصنف اور مدبر کے ساتھ، جو انتہائی سخت حالات پیش آئے، ان کی سرگذشت یوسف المعظم نے تحریر کی ہے:
تعذیب کے گونا گوں پہاڑ سید قطب پر توڑے گئے۔ انھیں آگ سے داغا گیا۔ پولیس کے کتوں نے انھیں کچلیوں میں لے کر گھسیٹا، ان کے سر پر مسلسل کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی انڈیلا گیا، انھیں لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا۔ دل آزار الفاظ اور بازاری اشاروں سے ان کی توہین کی گئی، مگر ان سب چیزوں نے سید قطب کے ایمان و یقین میں اضافہ کیا اور راہ حق پر ان کے قدم اور مضبوطی سے جم گئے۔
۱۳؍جولائی۱۹۵۵ء کو مصر کی 'عوامی عدالت'نے سید قطب شہید کو ۱۵سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ اس روز وہ بیماری و کمزوری کے سبب اور قیدی ہونے کے باوجود عدالت میں حاضر ہونے سے قاصرتھے۔ ۱۹۵۶ء کے وسط میں ان سے کہا گیا کہ وہ چند سطریں معافی نامے کے طور پر لکھ دیں تو ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ یہ الفاظ سید قطب کے سینے میں تیر کی طرح لگے، ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا اور انھوں نے تڑپ کر فرمایا:
مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو مظلوم سے کہتے ہیں کہ ظالم سے معافی مانگو۔ خدا کی قسم، اگر معافی کے چند الفاظ بھی مجھے پھانسی سے نجات دلا سکتے ہوں، تومیں تب بھی انھیں کہنے یا لکھنے کے لیے کبھی اور کسی صورت میں تیار نہ ہوں گا، اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں حاضر ہونا پسند کروں گا کہ میں اس سے خوش ہوں اور وہ مجھ سے خوش۔
سیّد قطب بچپن سے معدے اور انتڑیوں کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ نوجوانی میں سانس کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔ اسی لیے ڈاکٹر جسمانی محنت سے منع کرتے تھے۔
۴۰ برس کی عمر میں دوستوں سے کہا: اسکندریہ جا رہا ہوں'' پوچھا: ''کیوں؟''۔ کہا :''ہوا کی تبدیلی کے لیے''۔ پوچھا: ''ہوا کی تبدیلی؟'' کہا: ''ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ تمام دوائیاں آزما لی ہیں، کچھ بھی افاقہ نہیں ہو رہا، تو بہتر یہی ہے کہ ہوا کی تبدیلی کے لیے چند ہفتے اسکندریہ چلے جاؤ''۔
۱۹۵۴ء کی گرفتاری کے دوران میں تشدد کے باعث سانس کی بیماری دو چند ہو گئی، اور ساتھ ہی گردوں کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا، اور حالت یہ ہوگئی کہ پھیپھڑوں سے خون آنے لگا۔ اسی لیے دو ماہ تک فوجی عدالت میں سماعت بھی رکی رہی۔ جیل کے ہسپتال میں علاج ممکن نہ رہا تو ڈاکٹروں کے بورڈ نے [غیرفوجی] المنیل ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی، مگر دیر تک فوجی حکام نے اجازت نہ دی۔ انجام کار جب حالت نازک ہو گئی تو وہاں بھیجا گیا، مگر چند ہفتوں بعد پھر واپس جیل لے آیا گیا۔ دو ماہ بعد حالت ویسی ہی ہوگئی تو ایک بار پھر کچھ عرصے کے لیے المنیل لانا پڑا۔ پھر ۱۹۶۳ء میں تیسری بار صحت جواب دینے لگی تو عراقی صدر عبدالسلام عارف کی اپیل پر رہا کیا گیا۔

۞

۱۹۶۴ء میں ۱۰ سالہ قید بامشقت گزارنے کے بعد سید قطب کو رہا کیا گیا۔ اخوان المسلمون کے تیسرے مرشد عام عمر تلمسانی کے بقول: ۱۹۶۴ء میں جب سید قطب رہا ہوئے، تو عراقی صدر عبدالسلام عارف نے انھیں تعلیم و تربیت کے ایک اعلیٰ منصب کی پیش کش کی، کہ وہ عراق کے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کاوشیں کریں۔ سیّد شہید نے مجھ سے اس پیش کش کے قبول یا قبول نہ کرنے کے بارے میں مشورہ مانگا۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ: ''آپ یہ پیش کش قبول کر لیں اور عراق چلے جائیں''۔ دراصل مجھے مصر کے فوجی حکمرانوں کے ارادے برے نظر آ رہے تھے۔ تاہم، سیّد قطب نے میرے مشورے کے برعکس فیصلہ یہ کیا کہ وہ اپنی عالمانہ فکر کا دفاع کرنے کے لیے مصر ہی میں رہیں گے''۔
رہائی پانے کے بعد سید قطب نے اپنی کتاب معالم فی الطریق کا مسودّہ، مرشدعام امام حسن الہضیبی کی خدمت میں پیش کیا، تاکہ اخوان کے کارکنان کے مطالعۂ نصاب میں اس سے استفادہ کیا جا سکے۔ مرشدِ عام نے مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا: ''زیادہ مناسب ہوگا کہ اسے شائع کر لیا جائے، تاکہ اخوان اور عام لوگ بھی اس سے بخوبی استفادہ کرسکیں''۔ چنانچہ
۱۹۶۴ء میں یہ کتاب شائع ہو گئی۔ اس کتاب کا ہر صفحہ اور ہر سطر سید قطب کے ایمانِ کامل اور عملی شعور کی زندہ دلیل ہے۔ تاہم اگلے برس اگست۱۹۶۵ء میں سید قطب کو گرفتار کرنے کے لیے ایک سازش کا افسانہ تراشا گیا۔ دیگر بے معنی الزامات کے ساتھ سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق (جادہ ومنزل ترجمہ: خلیل احمد حامدی) کے جس پیراگراف کو خطرناک قرار دیتے ہوئے، صدر ناصر نے سید قطب کو گردن زنی قرار دیا، وہ تحریر یہ تھی:
جس طرح اسلام کے دورِ اوّل میں اسلامی معاشرہ ایک مستقل اور جداگانہ معاشرے کی صورت میں ترقی کی فطری منازل طے کرتا ہوا بام عروج کو پہنچا تھا، اسی طرح آج بھی، ویسا ہی اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لیے اسی طریق کار کو اختیار کیا جانا لازم ہے۔ اس اسلامی معاشرے کو اردگرد کے جاہلی معاشروں سے الگ رہ کر اپنا تشخص قائم کرنا ہوگا۔ (جادہ و منزل، ص
۵۰۔۵۱)
ان پانچ سطورکو ناصر حکومت نے 'بغاوت کی بنیاد' قرار دیا۔ سید قطب کے ساتھ اُن کے بھائی محمد قطب اور بہنوں امینہ قطب،حمیدہ قطب کے علاوہ زینب الغزالی [
۲؍نومبر۱۹۱۹ء- ۳؍اگست۲۰۰۵ء]، مرشد عام کی اہلیہ، ان کی بیٹی خالدہ اور ۷۰۰ سے زیادہ باپردہ خواتین کو بھی گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا: ''ان کے ساتھ کم و بیش ۲۰ہزار مرد کارکنوں کو قید کر لیا گیا اور مزید گرفتاریاں جاری رکھیں''۔ (ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ۱۱؍اکتوبر۱۹۶۵ء)
اس گرفتاری کے دوران میں سیّد قطب اور ان کے رفقا کی کیا حالتِ زار رہی؟ اس کی ایک جھلک دکھانے کے لیے لبنانی عیسائی ادیب روکس معکرون کی کتاب اقسمت ان روی [میں نے قسم کھائی، سب کچھ بتاؤں گا] سے چند اقتباسات ذیل میں دیے جا رہے ہیں۔ روکس معکرون اس زمانے میں چار برس تک مصر کی جیلوں میں قید رہے، لبنان واپسی پر یہ مختصر کتاب لکھی:
اخوان کے بعض نظر بند، جیل کی چاردیواری میں عمارت کے اندر چکر لگا رہے ہیں۔ ان کے پاؤں زخمی ہیں اور جسم تھکن سے چور۔ مگر پہرے داروں کے ہاتھوں میں کوڑے ہیں۔ جونہی کوئی نظر بند رُکتا ہے، پہرے دار کوڑے مار مار کر اس کی کمر لہولہان کر دیتے ہیں۔ پہرے داروں کی ایک اور ٹولی نظر بندوں کے چہروں پر گرم چُونا پھینک رہی ہے۔
لیمان جیل میں ایک اِخوانی کے چند رشتے دار ملنے آئے۔ پہرے داروں نے ان میں سے ایک خاتون سے بدکلامی کی۔ اِخوانی کو غصہ آگیا، اس نے زنجیروں میں جکڑا ہونے کے باوجود پہرے دار کو ڈانٹا، اور ساتھیوں نے بھی اس کی تائید کی۔ تھوڑی دیر بعد داروغۂ جیل کے حکم پر بہت سے اخوانیوں کو صحن میں لایا گیا اور ان نہتے لوگوں پر گولیوں کی بارش ہونے لگی۔
۲۱نوجوان تو اسی وقت شہید ہو گئے۔ مرتے مرتے ان کی زبان سے اسلام کا کلمہ طیبہ جاری تھا۔ ۵۶شدید زخمی ہوئے، جن میں سے ۱۱ بعد میں چل بسے۔ دن بھر لاشیں پڑی رہیں اور باقی لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ انھیں روندتے ہوئے گزریں۔
ایک نوجوان طالب علم محی الدین کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بھائی سے ایک ایسی حرکت کا مرتکب ہو، جس کے تصور ہی سے گھِن آتی ہے، زبان اسے بیان نہیں کر سکتی اور قلم لکھتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔ یہ حکم سُن کر طالب علم فرطِ غم سے بے ہوش ہو گیا، لیکن کوڑے مارنے والے ہی اسے ہوش میں لائے۔ اب آگے کیا لکھا جائے۔
یہ
۵۹سالہ سیّد قطب ہیں، جو مسلم دنیا کے نامور صاحبِ قلم اور مصنف ہیں۔ جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس کی صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔ اس عظیم دانش ور کے لیے ظالموں نے ایک بھیڑیا نما کتا پال رکھا تھا۔ جب سیدقطب بھوک، پیاس، تھکن اور سزا کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو جاتے تو کتا ان پر چھوڑ دیا جاتا۔ اور یہ کتا انھیں ٹانگ سے پکڑتا اور صحن میں گھسیٹتا پھرتا۔
سید قطب اور ان کے رفقا کا مقدمہ فوجی عدالت کے سپرد کیا گیا۔ اس نام نہاد عدالت کے کارندوں نے سماعت کے پورے دورانیے میں ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیے رکھا۔ جس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ ذہنی اذیت دی جائے، اور دوسرا یہ کہ وہ ردِ عمل میں اگر کچھ سخت کہیں تو اسے بہانہ بنا کر یہ مشہور کیا جائے کہ یہ 'لوگ غیر مہذب' ہیں۔اٹارنی جنرل صلاح نصار اس نام نہاد عدالتی کارروائی کے دوران میں سید قطب کو کبھی 'جرائم پیشہ لوگوں کا لیڈر' اور کبھی اس سے بھی زیادہ پست لفظوں میں مخاطب کرتا۔

۞

آخری مقدمے کی سماعت کے دوران میں سیّد قطب پر اٹارنی جنرل صلاح نصار کی جرح کے کچھ حصے:
*صلاح نصار: آپ کے وہ مضامین جو معالم فی الطریق میں شامل ہیں، کیا جیل میں لکھے گئے، اور ان کا موضوع کیا ہے؟
**سیّد قطب: ہاں، میں نے جیل میں لکھے ہیں۔ ان میں بنیادی موضوعات اصولِ عقیدہ سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ حاکمیتِ رب کا مسئلہ ہے، تنظیم کا مسئلہ ہے۔
* کیا حسن الہضیبی آپ کی اس راے سے پہلے سے واقف تھے؟ اور انھوں نے آپ کی یہ تحریر دیکھی ہے؟
**سیّد قطب: جی انھوں نے دیکھی ہے۔
* کیا آپ الہضیبی سے ملے ہیں؟
**سیّد قطب:
۱۹۶۴ء میں رہائی کے بعد الہضیبی سے تین ملاقاتیں ہوئی ہیں اور تینوں میرے گھر پر ہوئیں، اور ان میں صرف ہم دونوں ہی شریک رہے۔
* اخوان پر پابندی کے باوجود کیا آپ حسن الہضیبی کو مرشد عام تصور کرتے ہیں؟
**سیّد قطب: حسن الہضیبی کو مرشد عام کی حیثیت سے تسلیم کرنا تو لوگوں کے دلوں کی بات ہے۔ پابندی ہو یا نہ ہو، جب تک وہ مرشدعام ہیں انھیں رہبر تسلیم کیا جائے گا، اورمیرے اندر بھی یہی شعور ہے کہ وہ ہمارے مرشد عام ہیں۔
* کیا اخوان المسلمون کو سعودی عرب سے پیسے آتے ہیں؟
**سیّد قطب: جی ہاں، لیکن وہ پیسے ہمارے محنت کش بھائیوں ہی کی طرف سے آتے ہیں۔
* مختلف ممالک میں اخوان کی تنظیمیں قائم ہیں، حالانکہ وہ مختلف قومیں ہیں۔ کیا ان اخوانیوں کا یہ تعلق ان کی 'وطنیت' کے منافی نہیں ہے؟
**سیّد قطب: میرے خیال میں عقیدے کا رشتہ، قومی یا علاقائی رشتے سے زیادہ گہرا اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں 'وطنیت' اور 'قومیت' کے ان تعصبات کو ہوا دینے میں یہودی اور عیسائی استعمار کے شہ دماغوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ افسوس کہ اس زہرناکی نے امت کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے، جسے دور کرنا ہوگا۔
* آپ اخوان سے جو وابستگی کی بات کرتے ہیں، یہ اسلام سے نہیں بلکہ جماعت سے تعلق اور وابستگی کی بات ہے؟
**سیّد قطب: اخوان المسلمون کی دعوتی سرگرمیوں کی ساری وسعت دراصل اسلام اور اسلامی عقیدے کی وسعت ہے۔
* وہ مسلمان جو اخوان سے تعلق رکھتے اور جو اخوان سے تعلق نہیں رکھتے، ان دونوں میں کیا امتیازی فرق ہے؟
**سیّد قطب: جو چیز اخوان کو اپنے تمام مسلمان بھائیوں میں ممتاز کرتی ہے، وہ ہے ان کے پاس اسلام کو نافذ کرنے کا پروگرام اور ایجنڈا۔ اس اعتبار سے اخوان بہرحال اپنے ان مسلمان بھائیوں سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں، کہ جن کے پاس اسلام کا یہ عملی پروگرام نہیں ہے۔
* جو لوگ اخوان سے منسلک ہیں، وہ اپنے آپ کو فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا صرف اخوانی لوگ ہی اللہ کے راستے پر ہیں اور باقی نہیں ہیں؟
**سیّد قطب: مجموعی طور پر جو لوگ اخوان المسلمون کے پروگرام کے مطابق چلتے ہیں، ان کے بارے میں، میں یہی سمجھتا ہوں۔ تاہم ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ زیادہ بہتر انداز سے نہ چل رہے ہوں۔
* اخوان المسلمون میں اور مسلمانوں کی دوسری جماعتوں میں آخر کیا فرق ہے؟ حالانکہ سب ایک ہی طرح کے مسلمان ہیں؟
**سیّد قطب: میرے خیال میں فرق، کسی کا کسی پر فوقیت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ صرف اس بنا پر ہے کہ ایک کے سامنے واضح پروگرام اور نقشہ کار ہے، دوسرے کے پاس نہیں ہے۔ یہ چیز ہی بنیادی فرق ہے۔
*آپ کا اپنے آخری ہدف تک پہنچنے کا طریق کار کیا ہے؟
**سیّد قطب: ہماری آخری منزل شریعتِ الٰہی کا نفاذ ہے۔ اس راستے میں سرگرم سفر رہنے کے لیے انفرادی اور فکری تربیت کی ضرورت ہے۔ اجتماعی طور پر راستے کی طوالت اور اس کے مدارج اور اس کی مشکلات کا واضح احساس ہے۔
* پابندی کے بعد آپ کی تنظیم الاخوان المسلمون اس وقت خفیہ تنظیم نہیں ہے؟
**سیّد قطب: آپ چاہیں تو اسے خفیہ کہہ لیں۔
*جب آپ کا ہدف انفردی، فکری اور اخلاقی تربیت ہے تو پھر آپ خفیہ کیوں ہیں، کھل کر سامنے کیوں نہیں آتے؟
**سیّد قطب: ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ: اس خطے میں عیسائی، یہودی اور اشتراکی قوتیں منظم طور پر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی اخلاقیات سے ربط و تعلق رکھنے والی تمام تنظیمی اور اداراتی جماعتوں کی جڑوں کو کاٹنے میں ایک دوسرے کی مدد گار کے طور پر متحرک ہیں۔ ان قوتوں کو ظلم و جبر پر مبنی یہ کام کرنے کی کھلم کھلا اجازت ہے۔ تمام مالیاتی، انتظامی، ریاستی اور ابلاغی وسائل ان کے قبضے میں ہیں۔ اتنی جابرانہ اور ظالمانہ قوت رکھنے کے باوجود، وہ ہمیں ایک دن بھی کھلم کھلا برسرِزمین کام کرنے کی اجازت دینے اور ذرا سا بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ ہمیں ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں، لکھنے، بولنے اور جمع ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پھر یہی گروہ اپنی مرضی سے غیر اخلاقی اور تہذیب و شائستگی سے ٹکراتا ہوا قانون بنا کر ہمیں بند، پابند اور غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں مجبوراً اپنی بات کہنے کے لیے خفیہ طور پر کام لینا پڑا ہے۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ ہمیں کس بات پر، کیوں اور کس طرح روکا گیا ہے؟ اور اس کا جواز کیا ہے؟ پھر جب ہم اپنے پیدایشی حق کو استعمال کرکے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بتایا جائے کہ بھلا اس میں ملک اور معاشرے کو ہم کیا نقصان پہنچاتے ہیں۔
* مسلم اُمت ایک لمبے عرصے سے تباہ اور خوار ہے، آپ اس کو زندہ اور بحال کرنے کے لیے کیا پروگرام رکھتے ہیں؟
**سیّد قطب: 'مسلم اُمت' سے آپ کی مراد کیا ہے؟ 'مسلم اُمت' تو اس کو کہتے ہیں، جو: سیاسی، اجتماعی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا کے مطابق برضا و رغبت فیصلے کرے۔ اس مناسبت سے مصر اور دنیا میں امتِ مسلمہ موجود نہیں ہے، اگرچہ مسلمان بہت موجود ہیں۔ پھر ان میں انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت سے لوگ اس چیز کے لیے کوشاں ہیں کہ یہ مسلمان بہ حیثیت امتِ مسلمہ دنیا میں اپنا منصبی کردار ادا کریں۔
* آپ کے خیال میں، مصر میں جو معاشرتی نظام قائم ہے، کیا یہ جاہلی نظام ہے؟
**سیّد قطب: میرے خیال میں یہ غیر اسلامی نظام ہے۔
* آپ کے خیال میں کیا ہمارا معاشرہ جاہلی معاشرہ ہے؟
**سیّد قطب: اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سوسائٹی اسلامی ہوتی ہے یا سوسائٹی جاہلی ہوتی ہے۔
*[مصر کے]موجودہ نظام حکومت کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟
**سیّد قطب: میرے خیال میں یہ جاہلی نظام حکومت ہے۔
* اس کا مطلب ہے کہ آپ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
**سیّد قطب: یقیناًاسے تبدیل ہونا چاہیے۔
* اچھا، 'طاغوت'، سے آپ کی کیا مراد ہے؟
**سیّد قطب: میری راے میں، اللہ کے قانون سے ٹکرانے والا ہر قانون 'طاغوت' ہے۔
* 'وطنیت' کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے؟
**سیّد قطب: میرے خیال میں 'وطنیت' کی بنیاد، عقیدے پر استوار ہونی چاہیے زمین پر نہیں۔ اس لیے وطنیت کی محدود سوچ کو تبدیل ہونا چاہیے۔
* 'قومیت' کے بارے میں کیا خیال ہے؟
**سیّد قطب: میرا خیال ہے کہ محدود قومیت، ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اب دنیا فکر، سوچ اور عقیدے کی بنیاد پر وجود پا رہی ہے۔ اس میں 'اسلامی قومیت' کی بات ہو رہی ہے۔
* 'حاکمیتِ الٰہی' سے آپ کیا مراد ہے؟
**سیّد قطب: 'حاکمیت الٰہی' سے مراد، اللہ کی شریعت کو قانون کا ماخذتسلیم کرنا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔
* آپ کو معلوم ہوگا کہ 'خوارج' نے بھی یہی بات کہی تھی، اور حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے ان سے کہا تھا:''بات تو ان کی ٹھیک ہے، مگر مقصد ٹھیک نہیں؟''
**سیّد قطب: تاریخ میں کب کس نے کیا کہا تھا، اس سے قطع نظر، جب میں نے یہ اصطلاح استعمال کی، اُس وقت میرے ذہن میں وہ تاریخی واقعہ نہیں تھا۔ اللہ نے اپنی کتاب انسانی رہنمائی اور انسانی زندگی کو متوازن رکھنے اور درست فیصلے کرنے کے لیے نازل کی ہے۔ اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے ہم 'حاکمیت الٰہی' کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
* کیا آپ نے یہ فکر سیدابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں سے اخذ نہیں کی ہے؟
**سیّد قطب: جب میں اسلام کے بارے میں پڑھ رہا تھا، تب میں نے المودودی کی کئی کتابوں سے استفادہ کیاہے۔
* آپ کی دعوت اور مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے؟
**سیّد قطب: کوئی فرق نہیں ہے۔
* اخوان کو مسلح کرنے اور فوجی تربیت دینے کا مقصد کیا تھا؟
**سیّد قطب: دفاع۔
* کس طرف سے حملے کا دفاع؟
**سیّد قطب: یہودیوں کے حملے سے دفاع۔ اسی طرح تشدد کے لیے گرفتار کرنے، گرفتار کرکے قتل کرنے اور ماوراے عدالت موت کے گھاٹ اتار دینے کے عمل سے دفاع۔۔۔ جیسا کہ
۱۹۵۴ء میں بے جا طور پر اخوان پہ مسلط کیا گیا تھا۔
* کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ آپ نے حکومت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟
**سیّد قطب: جو حکومت کسی قانون اور اخلاق کی پاس داری نہیں کرتی، اس کے غلط فیصلوں سے اختلافِ راے رکھنے کا مطلب حکومت کا مقابلہ کرنا نہیں ہوتا۔
* موجودہ حالات میں آپ کا تنظیم قائم کرنا،کیا قانون کے خلاف نہیں ہے؟
**سیّد قطب: میں جانتا ہوں کہ آپ کے حکم کی رو سے یہ غیر قانونی ہے۔ لیکن ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے یہ میری مجبوری ہے، کیوں کہ ایک ذمہ دار تنظیم ہی فرد اور اجتماعیت کی فکری اور اخلاقی تربیت کا ذریعہ ہوتی ہے۔
* قانون کی خلاف ورزی، آخر اخلاقی تربیت کا کیسے وسیلہ بن سکتی ہے؟ کیاشریعت اس کی اجازت دیتی ہے، جب کہ ملک کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہی ہو؟
**سیّد قطب: اگر ملکی قانون ایک مسلمان کو دعوت دین کے بنیادی فریضے ہی کی ادایگی سے منع کرتا ہے، تو اصولاً یہ خرابی اس قانون میں ہے، جو دین کی ایک بنیاد کی مخالفت پر مبنی ہے۔
* کیا آپ کے خیال میں موجودہ مصری قوانینِ ریاست، مسلمانوں کو ان کے دینی فرائض کی انجام دہی سے اور دعوتِ دین سے منع کرتے ہیں؟
**سیّد قطب: جو ریاستی قوانین اور جو حکومتی فیصلے الاخوان کی سرگرمیوں کو روکنے اور تنظیم کو تباہ کرنے کے لیے بنائے اور نافذ کیے گئے ہیں، یہ دین کی مخالفت کے فیصلے ہیں۔ اس لیے کہ اخوان کو دین کی دعوت کے علانیہ کام سے روکنے کا عمل، بہرحال دینِ اسلام کی تعلیمات کے منافی فعل ہے۔
* آپ کا مطلب ہے کہ اخوان کو تحلیل اور غیر قانونی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ دین اسلام کا کام کرتی ہے؟
**سیّد قطب: بالکل، میں یہی سمجھتا ہوں۔
* بتائیے: تاریخی اعتبار سے آپ اخوان پر پابندی کے کیا اسباب جانتے ہیں؟
**سیّد قطب: مجھے یہ تو معلوم ہے کہ حکومتی فیصلے کے نتیجے میں اخوان پر پابندی لگائی گئی ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ ایسا کیوں کیا گیاہے؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ پابندی کے اس فیصلے کا قانونی اور اخلاقی جواز کیا ہے؟ تاہم، مجھے یہ معلوم ہے کہ الاخوان المسلمون پر صرف دینی سرگرمیوں کی وجہ سے پابندی لگائی گئی ہے، اور یوں بلاوجہ اسے تحلیل کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ محض اسلام دشمن طاقت ور قوتوں کے ذہن کا خلل ہے۔
* اخوان کو اس کے خفیہ تنظیم ہونے کے سبب تحلیل کیا گیا ہے؟
**سیّد قطب: مجھے معلوم ہے کہ اس وقت اخوان پر پابندی لگانے کا جواز اسے خفیہ تنظیم کے مسئلے سے جوڑ کر نکالا گیا ہے۔ تاہم، اخوان کی تحلیل کا سبب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب وہ ناپاک بیرونی سازشیں ہیں جنھوں نے اس پر پابندی لگوائی۔
* کیا مصر کی انقلابی حکومت ایسی خفیہ تنظیم کو اجازت دے سکتی ہے؟
**سیّد قطب: لیکن یہ تو ممکن تھا کہ حکومت خفیہ تنظیم کے وجود پر بات کرتی اور علانیہ تنظیم کو بحال کرتی۔
* آپ کی راے کے مطابق کیا الاخوان المسلمون ہی وہ واحد تنظیم ہے، جو اسلامی احکامات کے عین مطابق کام کررہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو روکا گیا تو مسلمانوں کو دینی فرائض ادا کرنے سے روگا گیا؟
** سیّد قطب: میری راے کے مطابق مختلف مسلم ممالک میں الاخوان المسلمون دعوتِ دین کا ایک کامیاب تجربہ رہا ہے۔ گذشتہ چار عشروں کے دوران، بلاشبہہ ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں، جن سے تنظیم کو نقصان پہنچا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس اسلامی تحریک کو خفیہ تنظیم کے مسئلے سے الگ کر دیا جائے۔
* آپ کی تنظیم کے رہنماؤں علی عشماوی وغیرہ کے مطابق آپ نے ان کو یہ کہا تھا، کہ وہ جاہلیت زدہ لوگوں کے درمیان ایک مومن کا وجود رکھتے ہیں۔ ان کا اس ملک، معاشرے اور اس میں قائم شدہ حکومت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، اور مومن ہونے کی حیثیت سے ان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو حالتِ جنگ میں سمجھیں۔ آپ نے ان کو یہ بھی کہا ہے کہ یہ ملک اسلامی اصطلاح کے مطابق آپ کے لیے 'دارالحرب' ہے۔ لہٰذا، جو فساد اور قتل کی سرگرمیاں یہاں ہوں گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اور نہ اس کی کوئی سزا ہو گی، بلکہ اس پراجر ملے گا؟
** سیّد قطب: یہ بات سمجھنے میںآپ اور اُن سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں:پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تنظیم ابھی ایک بیج ہے، جو بڑھے گا اور نشوونما پائے گا، تاکہ مومنین کے ہر اول دستے میں شامل ہو جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کا 'دارالحرب' اور 'دارالاسلام' سے تعلق، تو یہ گفتگو نظریاتی اصولوں کی بحث کے ضمن میں آتی ہے اور وہ بھی فقط احکام کو بیان کرنے کی غرض سے اور یہ بحث موجودہ دور میں عمل درآمد کرنے کے لیے نہیں۔ کیوں کہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ایک مسلم اُمت کا وجود مستقبل کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ یہ باتیں میں سمجھانا چاہتا تھا، لیکن افسوس، کہ وہ میری بات صحیح انداز میں سمجھ نہ پائے۔
*انھوں نے کس طرح آپ کی باتیں سمجھنے میں غلطی کی ہے؟ خاص کر جب ان میں سے ایک فرد نے آپ سے مسلمان کے قتل کا مسئلے پر بحث کی تھی اور اس کے بقول آپ نے کہا تھا کہ صرف لاالٰہ الااللہ کہہ دینے سے کسی فرد کا قتل حرام نہیں ہو جاتا؟
** سیّد قطب: مجھے یہ گفتگو یاد نہیں، اور اگر ہوئی بھی ہو گی، تو ضرورا پنی جان کے دفاع کے زمرے میں کی ہوگی، اور ایسی حالت میں زیادتی کرنے والا گنہگار ہوتا ہے، نہ کہ دفاع کرنے والا۔
* کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مسلمانوں کے درمیان خفیہ تنظیم کی موجودگی فتنے کا باعث بنتی ہے؟ جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا؟
** سیّد قطب: کبھی فتنے کا باعث بھی بنتی ہے، مگر گناہ اس پر ہوگا، جو اسے کھلم کھلا سرگرمیاں کرنے سے روکے، کہ پھر لوگ خفیہ سرگرمیاں کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس صورت حال سے بچاؤ اسی طرح ممکن ہے کہ کھلم کھلا سرگرمیوں کی اجازت دے دی جائے۔
* کیا آپ کا دین آپ پر واجب نہیں کرتا کہ آپ فتنے کو پیدا ہونے سے روک دیں؟ اور فتنے کے پیدا ہونے کے اقدامات و امکانات سے بچائیں؟
** سیّد قطب: دینی فریضے کی ادایگی فرض ہے، اور افتراق فتنہ ہے۔ مجھے چاہیے کہ اپنے دینی فریضے پر قائم رہوں اور اگر بے جا حکومتی رکاوٹ سے فتنہ واقع ہوتا ہے تو اس فتنے کا گناہ مجھ پر نہیں بلکہ اس پر ہو گا، جس نے میرا حقِ اظہار اور حقِ اجتماع چھینا اورمجھے چھپ کر کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔
*آپ کے خیال میں موجودہ حکومت اور اس نظام میں وہ کون کون سے اختلافی امور ہیں، جن کو آپ ٹھیک کرنے کے لیے کوشاں ہیں؟
** سیّد قطب: اللہ کی وضع کردہ شریعت، ان حکمرانوں کی وضع کردہ 'شریعت' میں موجود نہیں۔ ہمیں تو اللہ ہی کی شریعت کا نفاذ مطلوب ہے، لیکن حکمرانوں کا اصرار اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاذ پر ہے۔ میری راے کے مطابق یہی ہے سب سے بڑا تضاد، جس سے ہمارے معاشرے میں تمام فروعی تضادات جنم لے رہے ہیں۔(جاری)

 

 

سلیم منصور خالد

 

No comments:

Post a Comment

Posts of your interest